اے ذوق عرض ہنر حرف اعتدال میں رکھ
میں اک جواب ہوں مجھی کو مرے سوال میں رکھ
نقوش خاک بدن کو تو منتشر کر دے
مرے وجود کو پھر میرے خط و خال میں رکھ
پھر اس کے بعد ہنر دیکھ معجزائی کے
تو اس بدن کو مرے دست اتصال میں رکھ
تو مجھ سے مانگنا پھر میرے روز و شب کا حساب
اے حال حال مرے مجھ کو میرے حال میں رکھ
بریدہ سر کو سجا دے فصیل نیزہ پر
دریدہ جسم کو پھر عرصۂ قتال میں رکھ
یہ درد تیری امانت ہے سو اسے تو سنبھال
یہ میرا دل ہے اسے قریۂ ملال میں رکھ
تجھے غرور ہے میں بھی بلا کا ضدی ہوں
اے میری جان تو اس بات کو خیال میں رکھ
سنا ہے تجھ کو بھی ہے شعر و شاعری سے شغف
تو میرے شعر کو پھر شاہدؔ مثال میں رکھ
غزل
اے ذوق عرض ہنر حرف اعتدال میں رکھ
شاہد کمال