اے زمانے تری رفتار سے ڈر لگتا ہے
اب تری دوستی سے پیار سے ڈر لگتا ہے
کن ہواؤں کا اثر تجھ پے ہوا جاتا ہے
تیرے بدلے ہوئے کردار سے ڈر لگتا ہے
دیکھ سکتہ نہیں ناکام تجھے دنیا میں
جیت سے اپنی تری ہار سے ڈر لگتا ہے
دل کو آتا نہیں اظہار محبت کرنا
اور مجھ کو تیرے انکار سے ڈر لگتا ہے
زیست سے پائے ہیں غم اتنے کہ اب تو ہم کو
اپنی خوشیوں کے بھی گلزار سے ڈر لگتا ہے
اس قدر شور ہے ان پاؤں کی زنجیروں کا
مجھ کو پائل کی بھی جھنکار سے ڈر لگتا ہے
نکتہ چینی ہے سب احباب کا شیوہ ساگرؔ
اس لیے اپنی ہی گفتار سے ڈر لگتا ہے

غزل
اے زمانے تری رفتار سے ڈر لگتا ہے
روپ ساگر