اے ظالم ترے جب سے پالے پڑے
ہمیں اپنے جینے کے لالے پڑے
پھرے ڈھونڈتے پا برہنہ تجھے
یہاں تک کہ پاؤں میں چھالے پڑے
کیا ہے یہ طغیاں مرے اشک نے
کہ بہتے ہیں دنیا میں نالے پڑے
چلا غیر پر نئیں یہ تیر نگاہ
ہماری ہی چھاتی پہ بھالے پڑے
ہمیں کیوں کہ وہ شوخ بالے نہ دے
کہ اب کان میں کان بالے پڑے
مرا خون دل یوں بہا دشت میں
کہ جنگل میں لوہو کے تھالے پڑے
جہاں دارؔ غم ہے کسی لالہ رو کا
جو دل پر ترے داغ کالے پڑے
غزل
اے ظالم ترے جب سے پالے پڑے
مرزا جواں بخت جہاں دار