اے عمر ناز تجھ کو گزارے گزر نہ تھا
ہم بوریا نشینوں کا کوئی بھی گھر نہ تھا
دنیائے ہست و بود میں میرے سوا تجھے
سب قابل قبول تھے میں معتبر نہ تھا
یہ دل جو میرے سینے میں بجتا ہے رات دن
وہ درد سہہ چکا ہے کہ جو مختصر نہ تھا
اک چاند رو رہا تھا سر آسمان عشق
تاروں کی انجمن میں کوئی چارہ گر نہ تھا
یہ شور و غلغلہ ہے کہ لٹتا ہے مے کدہ
کیا واں پہ کوئی غالبؔ آشفتہ سر نہ تھا
تھے اندرون ذات کئی لاکھ حادثات
لیکن تمہاری یاد سے دل بے خبر نہ تھا
امکاں چہار سو تھا سفر کا مگر قمرؔ
تنہا کھڑا ہوا تھا کوئی ہم سفر نہ تھا

غزل
اے عمر ناز تجھ کو گزارے گزر نہ تھا
قمر عباس قمر