اے سنگ راہ آبلہ پائی نہ دے مجھے
ایسا نہ ہو کہ راہ سجھائی نہ دے مجھے
سطح شعور پر ہے مرے شور اس قدر
اب نغمۂ ضمیر سنائی نہ دے مجھے
انسانیت کا جام جہاں پاش پاش ہو
اللہ میرے ایسی خدائی نہ دے مجھے
رنگینیاں شباب کی اتنی ہیں دل فریب
بالوں پہ آتی دھوپ دکھائی نہ دے مجھے
ترک تعلقات پہ اصرار تھا تجھے
اب تو مری وفا کی دہائی نہ دے مجھے
بے بال و پر ہوں راس نہ آئے گی یہ فضا
ثانیؔ قفس سے اپنے رہائی نہ دے مجھے
غزل
اے سنگ راہ آبلہ پائی نہ دے مجھے
زرینہ ثانی