اے صنم تجھ کو ہم بھلا نہ سکے
دل سے داغ وفا مٹا نہ سکے
اللہ اللہ اس آستاں کی کشش
سر جھکایا تو سر اٹھا نہ سکے
مٹ گئے شوق دید میں لیکن
آپ جلوہ ہمیں دکھا نہ سکے
تیری چاہت میں درد وہ پایا
ہم زمانے میں چین پا نہ سکے
دے کے دل تم کو جان بھی دے دی
پھر بھی اپنا تمہیں بنا نہ سکے
جب سے نسبت ہوئی ترے در سے
ہم کسی در پہ سر جھکا نہ سکے
عشق میں یہ عجب تماشہ ہے
ان کو پایا تو خود کو پا نہ سکے
ایسی بدلی ہوا زمانے کی
زخم سینے کے مسکرا نہ سکے
تم فناؔ کی لحد پہ بعد فنا
آ کے دو پھول بھی چڑھا نہ سکے
غزل
اے صنم تجھ کو ہم بھلا نہ سکے
فنا بلند شہری