اے سیل آب ٹھہر اب کے گردنوں تک رہ
تنوں کی تختیاں دھونی ہیں بس تنوں تک رہ
جہاں ہے شہر وہاں دور تک درندے ہیں
غزل، غزال کے ہونٹوں پہ آ بنوں تک رہ
گلی میں تاک میں بیٹھے ہیں طفل سنگ بہ دست
اے میری خواہش عیار آنگنوں تک رہ
بہت سے کام ہیں جن سے نپٹنا باقی ہے
وصال رت تو بڑی شے ہے ساونوں تک رہ
ہوا میں تیر چلانے سے فائدہ جاویدؔ
تری جب آنکھیں کھلی ہیں تو دشمنوں تک رہ

غزل
اے سیل آب ٹھہر اب کے گردنوں تک رہ
جاوید انور