EN हिंदी
اے سیل آب ٹھہر اب کے گردنوں تک رہ | شیح شیری
ai sail-e-ab Thahar ab ke gardanon tak rah

غزل

اے سیل آب ٹھہر اب کے گردنوں تک رہ

جاوید انور

;

اے سیل آب ٹھہر اب کے گردنوں تک رہ
تنوں کی تختیاں دھونی ہیں بس تنوں تک رہ

جہاں ہے شہر وہاں دور تک درندے ہیں
غزل، غزال کے ہونٹوں پہ آ بنوں تک رہ

گلی میں تاک میں بیٹھے ہیں طفل سنگ بہ دست
اے میری خواہش عیار آنگنوں تک رہ

بہت سے کام ہیں جن سے نپٹنا باقی ہے
وصال رت تو بڑی شے ہے ساونوں تک رہ

ہوا میں تیر چلانے سے فائدہ جاویدؔ
تری جب آنکھیں کھلی ہیں تو دشمنوں تک رہ