اے سالک انتظار حج میں کیا تو ہکا بکا ہے
بگھولے سا تو کر لے طوف دل پہلو میں مکا ہے
چراغ گل کو روشن کر دیا آہوں کے شعلے سے
ہزاروں درجے بلبل خام پروانوں سے پکا ہے
جو ہے ہر سنگ میں پنہاں سو آتش لال سے چمکی
سبھی میں حق ہے ہر عارف میں کیا سیوا جھمکا ہے
گئی نیں بوئے شیر اس لب سے لیکن دیکھ وہ طلعت
وہی مہتاب کا ہے آب و افسردہ ہو چکا ہے
اے رب عرفاں کے درپن کو نہ رووے جوہر خواہش
ہوس کی موج الماس صفائے دل کو لکا ہے
وہ زلف و رو سے جگ ہے کفر و ایماں کے تردد میں
دو دل کرنے کوں اک عالم کے میرا شوخ پکا ہے
دل بیراگئی عزلتؔ میں رکھتا ہے دم ہستی
کمر میں اوس میاں کے جیسے سیلی کا متکا ہے
غزل
اے سالک انتظار حج میں کیا تو ہکا بکا ہے
ولی عزلت