اے مری ذات کے سکوں آ جا
تھم نہ جائے کہیں جنوں آ جا
رات سے ایک سوچ میں گم ہوں
کس بہانے تجھے کہوں آ جا
ہاتھ جس موڑ پر چھڑایا تھا
میں وہیں پر ہوں سر نگوں آ جا
یاد ہے سرخ پھول کا تحفہ؟
ہو چلا وہ بھی نیلگوں آ جا
چاند تاروں سے کب تلک آخر
تیری باتیں کیا کروں آ جا
اپنی وحشت سے خوف آتا ہے
کب سے ویراں ہے اندروں آ جا
اس سے پہلے کہ میں اذیت میں
اپنی آنکھوں کو نوچ لوں آ جا
دیکھ! میں یاد کر رہی ہوں تجھے
پھر میں یہ بھی نہ کر سکوں آ جا
غزل
اے مری ذات کے سکوں آ جا
فریحہ نقوی