اے مرے زخم دل نواز غم کو خوشی بنائے جا
آنکھوں سے خوں بہائے جا ہونٹوں سے مسکرائے جا
جانے سے پہلے بے وفا شب کو سحر بنائے جا
دل کو بجھا کے کیا چلا شمع کو بھی بجھائے جا
سانس کا تار ٹوٹ جائے ٹوٹے نہ تار آہ کا
ایک ہی لے پہ گائے جا ایک ہی دھن بجائے جا
حکم طلب کے منتظر شوق کی آبرو نہ کھو
سر کو قدم بنا کے چل آنکھوں سے بے بلائے جا
لے وہ دوائے تلخ ہے جس کا اثر ہے خوش گوار
پینے میں منہ بنائے جا دل میں مزے اٹھائے جا
جوشش چشم اشک بار مفت نہ رکھ کرم کا بار
میری لگی تو بجھ چکی اپنی لگی بجھائے جا
منزل بے خودیٔ شوق حد نظر سے دور ہے
پیچھے پلٹ کے بھی نہ دیکھ آگے قدم بڑھائے جا
اک ہمہ تن ہے پائے ناز اک ہمہ تن سر نیاز
یہ تو چلن جہاں کا ہے جتنا دے دبائے جا
ظرف شراب تیرے پاس ظروف سرور میرے پاس
دل تو نہیں بقدر جام دیکھ نہ منہ پلائے جا
دونوں ہیں ناز دلبری ضد میں ہے جن کی اور لطف
ایک طرف لگائے جا ایک طرف بجھائے جا
چاند میں گم چکور خود چاند کہیں چھپا ہوا
اپنی تلاش ختم کر اس کا پتہ لگائے جا
آرزوؔ اس سے کہہ دو صاف غم کا اثر ہے دیر پا
جلد ہنسی نہ آئے گی اور ابھی گدگدائے جا
غزل
اے مرے زخم دل نواز غم کو خوشی بنائے جا
آرزو لکھنوی