اے موت تجھ پہ عمر ابد کا مدار ہے
تو اعتبار ہستی بے اعتبار ہے
عہد ازل پہ زندگیوں کا مدار ہے
عالم تمام غم کدۂ اعتبار ہے
ذرات چشم شوق ہیں آمادۂ نگاہ
محرومیوں کو اب بھی ترا انتظار ہے
بیداد کا گلہ تو کروں اور جو وہ کہیں
یہ کہیے امتحان وفا ناگوار ہے
اک یہ وفا کہ ننگ غم دوست ہے ہنوز
اک وہ ستم کہ حسن کا آئینہ دار ہے
تمییز حسن و عشق نہ عرفان غم مگر
اک تیر بے پناہ کلیجے کے پار ہے
مختار ہوں کہ معترف جبر دوست ہوں
مجبور ہوں کہ یہ بھی کوئی اختیار ہے
اب کس کو اعتبار کہ تو بے وفا نہیں
اب کس کو انتظار مگر انتظار ہے
باقی نہیں کسی کو نشاط جنوں کا ہوش
کس جوش پر شباب غم روزگار ہے
آداب عاشقی کا تقاضا ہے اور بات
تو ورنہ دل کی آڑ میں خود بے قرار ہے
ہوگی کسی کو فرصت نظارۂ جمال
فانیؔ خراب حسن تماشائے یار ہے
غزل
اے موت تجھ پہ عمر ابد کا مدار ہے
فانی بدایونی