EN हिंदी
اے موسم جنوں یہ عجب طرز قتل ہے | شیح شیری
ai mausam-e-junun ye ajab tarz-e-qatl hai

غزل

اے موسم جنوں یہ عجب طرز قتل ہے

عبرت مچھلی شہری

;

اے موسم جنوں یہ عجب طرز قتل ہے
انسانیت کے کھیتوں میں لاشوں کی فصل ہے

اپنے لہو کا رنگ بھی پہچانتی نہیں
انسان کے نصیب میں اندھوں کی نسل ہے

منصف تو فیصلوں کی تجارت میں لگ گئے
اب جانے کس سے ہم کو تقاضائے عدل ہے

دشمن کا حوصلہ کبھی اتنا قوی نہ تھا
میرے تباہ ہونے میں تیرا بھی دخل ہے

لڑتے بھی ہیں تو پیار سے منہ موڑتے نہیں
ہم سے کہیں زیادہ تو بچوں میں عقل ہے

تاریخ کہہ رہی ہے کہ چہرہ بدل گیا
انسان ہے مصر کہ وہی اپنی شکل ہے

دعویٔ خوں بہا نہ تظلم نہ احتجاج
کس بے نوائے وقت کا عبرتؔ یہ قتل ہے