EN हिंदी
اے مسیحا دم ترے ہوتے ہوئے کیا ہو گیا | شیح شیری
ai masiha-dam tere hote hue kya ho gaya

غزل

اے مسیحا دم ترے ہوتے ہوئے کیا ہو گیا

گلزار دہلوی

;

اے مسیحا دم ترے ہوتے ہوئے کیا ہو گیا
بیٹھے بٹھلائے مریض عشق ٹھنڈا ہو گیا

یوں مرا سوز جگر دنیا میں رسوا ہو گیا
شعر و نغمہ رنگ و نکہت جام و صہبا ہو گیا

چارہ گر کس کام کی بخیہ گری تیری کہ اب
اور بھی چاک جگر میرا ہویدا ہو گیا

ہے تری زلف پریشاں یا مری دیوانگی
جو تماشہ کرنے آیا خود تماشا ہو گیا

ہائے یہ تازہ ہوا گلشن میں کیسی چل پڑی
بلبل باغ و بہاراں رو بہ صحرا ہو گیا

عمر بھر کی مشکلیں پل بھر میں آساں ہو گئیں
ان کے آتے ہیں مریض عشق اچھا ہو گیا

کیا مرے زخم جگر سے کھل اٹھی ہے چاندنی
کن چراغوں سے زمانے میں اجالا ہو گیا

ہر طرح مایوس اور محروم ہو کر پیار سے
جس کے تم پیارے تھے وہ مولا کو پیارا ہو گیا

ہم گنہ گاروں کی لغزش حشر میں کام آ گئی
چشم نم کا دامن تر کو سہارا ہو گیا

اک مری شاخ نشیمن پھونکنے کے واسطے
کس کی کج فہمی سے گھر بھر میں اجالا ہو گیا

اب شفق یا ابر کا گلزارؔ کیوں ہو انتظار
ان کی آنکھوں سے جو پینے کا اشارہ ہو گیا