EN हिंदी
اے مہ ہجر کیا کہیں کسی تھکن سفر میں تھی | شیح شیری
ai mah-e-hijr kya kahen kisi thakan safar mein thi

غزل

اے مہ ہجر کیا کہیں کسی تھکن سفر میں تھی

نجیب احمد

;

اے مہ ہجر کیا کہیں کیسی تھکن سفر میں تھی
روپ جو رہ گزر میں تھے دھوپ جو رہ گزر میں تھی

لفظ کی شکل پر نہ جا لفظ کے رنگ بھی سمجھ
ایک خبر پس خبر آج کی ہر خبر میں تھی

رات فصیل شہر میں ایک شگاف کیا ملا
خون کی اک لکیر سی صبح نظر نظر میں تھی

میری نگاہ میں بھی خواب تیری نگاہ میں خواب
ایک ہی دھن بسی ہوئی عصر رواں کے سر میں تھی

شہر پہ رتجگوں سے بھی باب افق نہ کھل سکا
وسعت بام و در نجیبؔ وسعت بام و در میں تھی