اے خدا بھرم رکھنا برقرار اس گھر کا
ہے ترے کرم پر ہی انحصار اس گھر کا
ہر کواڑ ڈوبا ہے بے کراں اداسی میں
اور ہر دریچہ ہی سوگوار اس گھر کا
پھیلتی چلی جائے بیل بدگمانی کی
ختم ہی نہیں ہوتا انتشار اس گھر کا
اس جہاں میں ہوگا بے عمل نہ ہم جیسا
ہم نہ رکھ سکے قائم اعتبار اس گھر کا
کس قدر گناہوں کے مرتکب ہوئے ہیں ہم
جو سکون لٹتا ہے بار بار اس گھر کا
گرد بے یقینی کی گر سمیٹ لیں مل کر
معتبر گھروں میں ہو پھر شمار اس گھر کا
جان سے گزرنے کا حوصلہ عطا کر دے
اب مکیں نہ ہو کوئی شرمسار اس گھر کا
غزل
اے خدا بھرم رکھنا برقرار اس گھر کا
اکرام مجیب