اے کہکشاں نواز مقدر اجال دے
میری طرف بھی ایک ستارہ اچھال دے
ہم پورے آفتاب کے قابل نہیں اگر
تھوڑی سی پیلی دھوپ ہی آنکھوں میں ڈال دے
ہاں کہتے کہتے گنگ نہ ہو جائے دل کہیں
یا رب مری زبان کو تاب سوال دے
روگی ہوا ہے دھوپ کو ترسا ہوا بدن
اے مامتا سپوت کو گھر سے نکال دے
کوئی تو دوستوں سے مرے دوستی کرے
کوئی تو مہرباں ہو بلاؤں کو ٹال دے
تو لفظ گر تو ہے تجھے شاعر کہیں گے جب
اک بے زبان حرف کو نغمے میں ڈھال دے
بجلی کا تیر جیسے دھنک کی کمان میں
کیا اور اس شباب کی کوئی مثال دے
باقرؔ اس آفتاب میں جوہر ہے اس قدر
آ جائے جوش میں تو سمندر ابال دے
غزل
اے کہکشاں نواز مقدر اجال دے
باقر نقوی