اے کہکشاں گزر کے تری رہ گزر سے ہم
آگے بڑھیں گے اور مقام قمر سے ہم
عزم بلند حوصلۂ مستقل لیے
گزرے ہر ایک مرحلۂ سخت تر سے ہم
دیکھا تو ہے زمیں سے تجھے گنبد فلک
دیکھیں گے اب زمیں کو ترے بام و در سے ہم
جب سے ہوئی ہے آنکھ شب غم سے آشنا
نا آشنا ہیں لذت خواب سحر سے ہم
دل اضطراب و درد سے محروم ہو گیا
باز آئے تیرے لطف و کرم کی نظر سے ہم
ہر تازہ غم کے واسطے جائے قیام ہے
تنگ آ گئے ہیں وسعت قلب و جگر سے ہم
ترغیب دے نہ اے دل فرقت نصیب تو
واقف ہیں خوب آہ و فغاں کے اثر سے ہم
فاضلؔ ہمارا حال بھی ہوتا تری مثال
رہتے نہ ہوشیار اگر راہ بر سے ہم

غزل
اے کہکشاں گزر کے تری رہ گزر سے ہم
فاضل انصاری