اے کاش ہو برسات ذرا اور ذرا اور
بڑھ جائے ملاقات ذرا اور ذرا اور
ہاتھوں میں ترا ہاتھ یہ کافی تو نہیں ہے
مل جائیں خیالات ذرا اور ذرا اور
کھلتی ہے یہ تنہائی تو دوری بھی مٹا دے
تو مان مری بات ذرا اور ذرا اور
بجھتی ہے کہاں پیاس اب آنکھوں سے پلا کر
دے پیار کی سوغات ذرا اور ذرا اور
حالات ہوں ہموار تو کیا فکر ہے لیکن
مشکل میں مناجات ذرا اور ذرا اور
جب پیار سے ملتا ہے تو بھرتا ہے کہاں دل
الفت سے بھری رات ذرا اور ذرا اور
غزل
اے کاش ہو برسات ذرا اور ذرا اور
احیا بھوجپوری