اے جنوں ہاتھ کے چلتے ہی مچل جاؤں گا
میں گریبان سے پہلے ہی نکل جاؤں گا
وہ ہٹے آنکھ کے آگے سے تو بس صورت عکس
میں بھی اس آئنہ خانے سے نکل جاؤں گا
مہر تم سوختہ میں شیشۂ آتش ہے رقیب
اس پہ ڈالو گے تجلی تو میں جل جاؤں گا
مجھ سے کہتا ہے مرا دود جگر صورت شمع
دل میں روکو گے تو میں سر سے نکل جاؤں گا
شمع ساں برسر محفل نہ جلا دیکھ مجھے
پھیل جاؤں گا ستم گر جو پگھل جاؤں گا
ٹھہر اے مہر ذرا صبح شب وصل ہے آج
بام پر دھوپ چڑھے گی تو میں ڈھل جاؤں گا
روکتا ہوں کبھی شوخی سے تو ہر طفل سرشک
رو کے کہتا ہے ابھی گھر سے نکل جاؤں گا
کار امروز بفردا مگذار اے واعظ
آج اس کوچہ میں ہوں خلد میں کل جاؤں گا
کون اٹھائے گا الٰہی شب غم کی افتاد
منہ کو آتا ہے کلیجہ کہ نکل جاؤں گا
لے کے آنکھوں میں ترا جلوہ کہاں جائے گا
غیر کو دیکھ کے میں آنکھ بدل جاؤں گا
ہر طرح ہاتھ میں ہوں گوشۂ دامن کی طرح
وہ سنبھالیں گے جو مجھ کو تو سنبھل جاؤں گا
غزل
اے جنوں ہاتھ کے چلتے ہی مچل جاؤں گا
بیان میرٹھی