اے حضرت عیسیٰ نہیں کچھ جائے سخن اب
وہ آ گئے رکھوائیے تہہ کر کے کفن اب
سینچا گیا پھولا ہے نئے سر سے چمن اب
اشکوں نے کیے سبز مرے داغ کہن اب
وہ شوق اسیری کھلے گیسو کے شکن اب
ترسیں گے قفس کے لیے مرغان چمن اب
خاموشی نے معدوم کیا اور دہن اب
تم ہی کہو باقی رہی کیا جائے سخن اب
یاران وطن کو ہے غریبوں سے کنارہ
غربت کا تقاضا ہے کرو ترک وطن اب
سن لیجیے کچھ قصۂ بیتابی دل کو
جو جی میں ہو کہہ لیجیے پھر مشفق من اب
سیماب بنایا بت ہجراں نے جگر کو
دل ٹھہرنے دیتی نہیں سینہ کی جلن اب
آخر کوئی حد بھی تری اے دوری غربت
مایوس ہوئے جاتے ہیں یاران وطن اب
کیا فکر ہے اے شعلہؔ پیو بادۂ رنگیں
ڈالو بھی کہیں بھاڑ میں یہ رنج و محن اب
غزل
اے حضرت عیسیٰ نہیں کچھ جائے سخن اب
شعلہؔ علی گڑھ