اے حق سرشت آئنہ حق نما ہیں ہم
اے ابتدائے کار تری انتہا ہیں ہم
تم کیا ہو عشوہ کاریٔ تخیئل اور کیا
ہم کیا ہیں باز گشتہ تمہاری صدا ہیں ہم
ذہن ازل میں ایک تصور کا اہتزاد
مدھم سی ایک نغمۂ کن کی نوا ہیں ہم
کچھ بھی نہیں جو تو نہ ہو تو ہے تو کیا نہیں
سب کچھ بھی ہم ہیں اور جو سوچیں تو کیا ہیں ہم
آ اے نقاب پوش ازل آ قریب تر
پردہ الٹ کے آ کہ تیرا مدعا ہیں ہم
کیسی تلاش راہ کہ منزل میں آپ ہیں
کیسی رجا و بیم کہ خود مدعا ہیں ہم
غزل
اے حق سرشت آئنہ حق نما ہیں ہم
محمد دین تاثیر