اے ہم نفسو درد کی یہ رات کڑی ہے
سر تھامے ہوئے دل میں کہیں آس کھڑی ہے
ہم رنگ شفق ہے دل معصوم کا عالم
وہ دور تمنا کی سحر چپ کے کھڑی ہے
اجلی تھی تری یاد کی یہ زرد سی پتی
خاکستر ایام میں خاموش پڑی ہے
ان آنکھوں میں پھر دیکھا حیا رنگ تبسم
رستے میں قضا سے مری پھر آنکھ لڑی ہے
پھر دست صبا نے وہ گجر آج بجایا
پلکوں پہ پھر اک بار مری نیند اڑی ہے
پھر شہر غزالاں میں غزل لایا ہے قیصرؔ
صورت کدۂ حسن میں پھر دھوم پڑی ہے

غزل
اے ہم نفسو درد کی یہ رات کڑی ہے
قیصر قلندر