اے دنیا تیرے رستے سے ہٹ جائیں گے
آخر ہم بھی اپنے سامنے ڈٹ جائیں گے
ہم خود کو آباد کریں گے اپنے دل میں
تیرے آنکھ جزیرے سے اب کٹ جائیں گے
دھند سے پار بھی کام کریں گی اپنی نظریں
آنکھ کے سامنے سے یہ بادل چھٹ جائیں گے
آخر ڈھل جائے گا ''جیون روگ'' کا سورج
ہم بھی ''اوکھے دن'' ہیں لیکن کٹ جائیں گے
لوگ ہمیں محسوس کریں گے پھول اور تارے
اور ہم سوچتی ''دل آنکھوں'' میں بٹ جائیں گے
دیکھنا ایسی رات بھی آئے گی جب اخترؔ
دھیرے دھیرے ہم تاروں سے اٹ جائیں گے
غزل
اے دنیا تیرے رستے سے ہٹ جائیں گے
اختر شمار