اے دوست میں خاموش کسی ڈر سے نہیں تھا
قائل ہی تری بات کا اندر سے نہیں تھا
ہر آنکھ کہیں دور کے منظر پہ لگی تھی
بیدار کوئی اپنے برابر سے نہیں تھا
کیوں ہاتھ ہیں خالی کہ ہمارا کوئی رشتہ
جنگل سے نہیں تھا کہ سمندر سے نہیں تھا
اب اس کے لئے اس قدر آسان تھا سب کچھ
واقف وہ مگر سعی مکرر سے نہیں تھا
موسم کو بدلتی ہوئی اک موج ہوا تھی
مایوس میں بانیؔ ابھی منظر سے نہیں تھا
غزل
اے دوست میں خاموش کسی ڈر سے نہیں تھا
راجیندر منچندا بانی