EN हिंदी
اے دوست کہیں تجھ پہ بھی الزام نہ آئے | شیح شیری
ai dost kahin tujh pe bhi ilzam na aae

غزل

اے دوست کہیں تجھ پہ بھی الزام نہ آئے

حکیم ناصر

;

اے دوست کہیں تجھ پہ بھی الزام نہ آئے
اس میری تباہی میں ترا نام نہ آئے

یہ درد ہے ہمدم اسی ظالم کی نشانی
دے مجھ کو دوا ایسی کہ آرام نہ آئے

کاندھے پہ اٹھائے ہیں ستم راہ وفا کے
شکوہ مجھے تم سے ہے کہ دو گام نہ آئے

لگتا ہے کہ پھیلے گی شب غم کی سیاہی
آنسو مری پلکوں پہ سر شام نہ آئے

میں بیٹھ کے پیتا رہوں بس تیری نظر سے
ہاتھوں میں کبھی میرے کوئی جام نہ آئے

بیٹھا ہوں دیا گھر کا جو ناصرؔ میں جلا کے
ایسا نہ ہو پھر وہ دل ناکام نہ آئے