EN हिंदी
اے دل اس زلف کی رکھیو نہ تمنا باقی | شیح شیری
ai dil us zulf ki rakhiyo na tamanna baqi

غزل

اے دل اس زلف کی رکھیو نہ تمنا باقی

عاشق اکبرآبادی

;

اے دل اس زلف کی رکھیو نہ تمنا باقی
حشر تک ورنہ رہے گی شب یلدا باقی

ترے ہنگامہ سے خوش ہوں مگر اے جوش جنوں
کچھ قیامت کے لئے بھی رہے غوغا باقی

آپ کو بیچ چکا ہوں ترے غم کے ہاتھوں
ہے مگر عشق کا تیرے ابھی سودا باقی

غم ہجراں میں گئی جان چلو خوب ہوا
دوستوں کو نہ رہے فکر مداوا باقی

جان سینہ سے نکلنے کو ہے دل پہلو سے
ہے فقط اس نگہ ناز کا ایما باقی

خاک عاشق سے اگاتا ہے مغیلاں کا درخت
اس کی مژگاں کا ہے مرقد میں بھی کھٹکا باقی