اے دل نشیں تلاش تری کو بہ کو نہ تھی
اپنے سے اک فرار تھا وہ جستجو نہ تھی
اظہار نارسا سہی وہ صورت جمال
آئینۂ خیال میں بھی ہو بہو نہ تھی
کیا سحر تھا کہ ہنستے ہوئے جان دے گئے
وہ بھی کہ جن کو تاب غم آرزو نہ تھی
کیا جانے اہل بزم نے کیا کیا سمجھ لیا
اخفائے آرزو تھی وہ چپ گفتگو نہ تھی
وہ کون سی سحر تھی کہ روئی نہ پھول پھول
وہ شام کون سی تھی کہ غم سے لہو نہ تھی
ہم تو فریفتہ تھے ضیاؔ دل کی آنچ پر
منظور محض دل کشیٔ رنگ و بو نہ تھی
غزل
اے دل نشیں تلاش تری کو بہ کو نہ تھی
ضیا جالندھری