اے دل خوشی کا ذکر بھی کرنے نہ دے مجھے
غم کی بلندیوں سے اترنے نہ دے مجھے
گھر ہی اجڑ گیا ہو تو لطف قیام کیا
اے گردش مدام ٹھہرنے نہ دے مجھے
مقصد یہ ہے سکوں کسی صورت نہ ہو نصیب
اے چارہ ساز بات بھی کرنے نہ دے مجھے
چہرے پہ کھال تک بھی نہ چھوڑیں گے بد نگاہ
اے میرے خیر خواہ سنورنے نہ دے مجھے
ہے دیکھنے کی چیز جو بسمل کا رقص بھی
دنیا یہ چاہتی ہے کہ مرنے نہ دے مجھے
یہ دور سنگ دل ہی نہیں تنگ دل بھی ہے
گر بس چلے تو آہ بھی کرنے نہ دے مجھے
اب بھی یہ حوصلہ ہے کہ کچھ کام آ سکوں
میں ٹوٹ تو گیا ہوں بکھرنے نہ دے مجھے
غزل
اے دل خوشی کا ذکر بھی کرنے نہ دے مجھے
حفیظ میرٹھی