اے دل درد آشنا حسن سے رسم و راہ کر
عشق ہے باعث نجات شوق سے تو گناہ کر
لطف بھی گاہ گاہ کر ظلم بھی بے پناہ کر
جیسے بھی تجھ سے ہو سکے مجھ سے مگر نباہ کر
میرے سوال وصل پر آج وہ مجھ سے کہہ گئے
تو ابھی چند روز اور ہجر میں آہ آہ کر
حسن ترے حضور خود آئے بہ اضطراب دل
اے دل درد آشنا ایسی بھی ایک آہ کر
شوق ہے گر وقار کا گلشن روزگار میں
پھولوں کے ساتھ ہی عزیزؔ کانٹوں سے بھی نباہ کر
غزل
اے دل درد آشنا حسن سے رسم و راہ کر
عزیز وارثی