EN हिंदी
اے دل اب اور کوئی قصۂ دنیا نہ سنا | شیح شیری
ai dil ab aur koi qissa-e-duniya na suna

غزل

اے دل اب اور کوئی قصۂ دنیا نہ سنا

شان الحق حقی

;

اے دل اب اور کوئی قصۂ دنیا نہ سنا
چھیڑ دے ذکر وفا ہاں کوئی افسانہ سنا

غیبت دہر بہت گوش گنہ گار میں ہے
کچھ غم عشق کے اوصاف کریمانہ سنا

کار دیروز ابھی آنکھوں سے کہاں سمٹا ہے
خوں رلانے کے لیے قصۂ فردا نہ سنا

دامن باد کو ہے دولت شبنم کافی
روح کو ذکر تنک بخشئ دریا نہ سنا

سنتے ہیں اس میں وہ جادہ ہے کہ دل چیز ہے کیا
سنتے ہیں اس پہ وہ عالم ہے کہ دیکھا نہ سنا

گوش بے ہوش وہ کیا جس نے کہ ہنگام نوا
کوئی نالہ ہی لب نے سے نکلتا نہ سنا

ہم نشیں پردگئی راز اسے کہتے ہیں
لب ساغر سے کسی رند کا چرچا نہ سنا

کچھ عجب چال سے جاتا ہے زمانہ اب کے
حشر دیکھے ہیں مگر حشر کا غوغا نہ سنا

بڑھ گیا روز قیامت سے شب غم کا سکوت
جسم آدم میں کہیں دل ہی دھڑکتا نہ سنا

نوحۂ غم کوئی اس بزم میں چھیڑے کیونکر
جس نے گیتوں کو بھی با خاطر بیگانہ سنا