اے دیدۂ گریاں کیا کہیے اس پیار بھرے افسانے کو
اک شمع جلی بجھنے کے لیے اک پھول کھلا مرجھانے کو
میں اپنے پیار کا دیپ لیے آفاق میں ہر سو گھوم گیا
تم دور کہیں جا پہنچے تھے آکاش پہ جی بہلانے کو
وہ پھول سے لمحے بھاری ہیں اب یاد کے نازک شانوں پر
جو پیار سے تم نے سونپے تھے آغاز میں اک دیوانے کو
اک ساتھ فنا ہو جانے سے اک جشن تو برپا ہوتا ہے
یوں تنہا جلنا ٹھیک نہیں سمجھائے کوئی پروانے کو
میں رات کا بھید تو کھولوں گا جب نیند نہ مجھ کو آئے گی
کیوں چاند ستارے آتے ہیں ہر رات مجھے سمجھانے کو
غزل
اے دیدۂ گریاں کیا کہیے اس پیار بھرے افسانے کو
قتیل شفائی