اے درد نہ تھم سر اور اٹھا دل چارہ گری کی راہ نہ تک
دیکھ اشک فشاں ہے اب تجھ پر صحراؤں میں دیوانہ تک
تم لوٹ چکے ہو گر تو کہو یا باقی ہے ارمان ابھی
پہلے ہی تمہیں ہم دے بیٹھے ہیں جان کا یہ نذرانہ تک
صحرا میں بسے سب دیوانے شہروں میں بھی محشر ہے برپا
اللہ تری اس خلقت سے باقی نہ رہا ویرانہ تک
تمثال پہ خون ناحق بھی اور آتش ظلم و جور بھی ہے
ڈوبی ہوئی چشم شوق بھی ہے خوش رنگ رخ جانانہ تک
کھڑکی دروازے بند کرو مسند بھی سمیٹو اے لوگو
مطرب بھی گئے شمعیں بھی بجھیں اور ختم ہوا افسانہ تک
غزل
اے درد نہ تھم سر اور اٹھا دل چارہ گری کی راہ نہ تک
عفیف سراج