اے بت جفا سے اپنی لیا کر وفا کا کام
بندوں کے کام آ کہ یہی ہے خدا کا کام
کس جا تھا قصد شوق نے پہنچا دیا کدھر
کہتے نہ تھے ٹھگوں سے نہ لے رہ نما کا کام
کہتا ہے دل سنا مجھے گیسو کی داستاں
آج اس نے سر پہ ڈال دیا ہے بلا کا کام
تاثیر کو نہ آہ سے پوچھوں تو کیا کروں
کیوں خود اٹھا لیا دل بے مدعا کا کام
اپنی سی تو تو کر انہیں پھر اختیار ہے
سننا ہے ان کا کام پہنچنا دعا کا کام
سینے میں داغ کھلتے ہی جاتے ہیں ہر نفس
اب اپنی سانس کرتی ہے باد صبا کا کام
موسیٰ فقط نہ تھے ترے آئینہ داروں میں
عیسیٰ بھی کرتے تھے لب معجزنما کا کام
ہر رات اپنی آنکھوں کو رونا ہے فرض عین
طاعت گزار کرتے ہیں جیسے خدا کا کام
تھا بھی ذلیل حسن کی سرکار میں یہ دل
کم بخت کو سپرد ہوا التجا کا کام
اے شادؔ میری سخت زبانی پہ ہے خموش
ناصح بھی اب تو کرنے لگا انبیا کا کام
غزل
اے بت جفا سے اپنی لیا کر وفا کا کام
شاد عظیم آبادی