اے بجھے رنگوں کی شام اب تک دھواں ایسا نہ تھا
آج گھر کی چھت سے دیکھا آسماں ایسا نہ تھا
کب سے ہے گرتے ہوئے پتوں کا منظر آنکھ میں
جانے کیا موسم ہے خوابوں کا زیاں ایسا نہ تھا
کوئی شے لہرا ہی جاتی تھی فصیل شب کے پار
دور افق میں دیکھنا کچھ رائیگاں ایسا نہ تھا
پیڑ تھے سائے تھے پگڈنڈی تھی اک جاتی ہوئی
کیا یہ سب کچھ خواب تھا سچ مچ یہاں ایسا نہ تھا
فاصلہ کم کرنے والے راستے شاید نہ تھے
اب تو لگتا ہے سفر ہی درمیاں ایسا نہ تھا
دل کہ تھا مائل بہت ویراں جزیروں کی طرف
یہ ہوا ایسی نہ تھی یہ بادباں ایسا نہ تھا
کوئی گوشہ خواب کا سا ڈھونڈ ہی لیتے تھے ہم
شہر اپنا شہر بانیؔ بے اماں ایسا نہ تھا
غزل
اے بجھے رنگوں کی شام اب تک دھواں ایسا نہ تھا
راجیندر منچندا بانی