EN हिंदी
اے بد گماں ترا ہے گماں اور کی طرف | شیح شیری
ai bad-guman tera hai guman aur ki taraf

غزل

اے بد گماں ترا ہے گماں اور کی طرف

شاد لکھنوی

;

اے بد گماں ترا ہے گماں اور کی طرف
میرا ترے سوا نہیں دھیاں اور کی طرف

ناوک مجھے رقیب کو برچھی لگائیے
تیر اس طرف چلے تو سناں اور کی طرف

مجھ کو سنا کے غیر کے اوپر پلٹ پرو
پلٹو جو گفتگو میں زباں اور کی طرف

حور و پری پہ کیا ہے ہمارا سوائے یار
دل اور کی طرف ہے نہ جاں اور کی طرف

گھر دل میں تو ہمارے خدا کے لیے نہ لے
اے خانماں خراب مکاں اور کی طرف

ہم فاقہ مست رزق مقدر پہ شاد ہیں
بھیجے خدا طعام کے خواں اور کی طرف

اردو میں مصحفیؔ کو بھی استاد کہہ کے شادؔ
آوازہ کس گیا یہ جواں اور کی طرف