اے بد گماں ترا ہے گماں اور کی طرف
میرا ترے سوا نہیں دھیاں اور کی طرف
ناوک مجھے رقیب کو برچھی لگائیے
تیر اس طرف چلے تو سناں اور کی طرف
مجھ کو سنا کے غیر کے اوپر پلٹ پرو
پلٹو جو گفتگو میں زباں اور کی طرف
حور و پری پہ کیا ہے ہمارا سوائے یار
دل اور کی طرف ہے نہ جاں اور کی طرف
گھر دل میں تو ہمارے خدا کے لیے نہ لے
اے خانماں خراب مکاں اور کی طرف
ہم فاقہ مست رزق مقدر پہ شاد ہیں
بھیجے خدا طعام کے خواں اور کی طرف
اردو میں مصحفیؔ کو بھی استاد کہہ کے شادؔ
آوازہ کس گیا یہ جواں اور کی طرف
غزل
اے بد گماں ترا ہے گماں اور کی طرف
شاد لکھنوی