اے آوارہ یادو پھر یہ فرصت کے لمحات کہاں
ہم نے تو صحرا میں بسر کی تم نے گزاری رات کہاں
میری آبلہ پائی ان میں یاد اکثر کی جاتی ہے
کانٹوں نے اک مدت سے دیکھی تھی کوئی برسات کہاں
بے حس دیواروں کا جنگل کافی ہے وحشت کے لیے
اب کیوں ہم صحرا کو جائیں اب ویسے حالات کہاں
جس کو دیکھو فکر رفو ہے جس کو دیکھو وہ ناصح
بستی والوں میں ہار آئے وحشت کی سوغات کہاں

غزل
اے آوارہ یادو پھر یہ فرصت کے لمحات کہاں
راہی معصوم رضا