اے آسماں کرم اتنا زمین پر کر دے
سمیٹ لے سبھی تاریکیاں سحر کر دے
کسی سے قصۂ شہر طلسم کہہ نہ سکوں
الٰہی بے حس و بے نطق و بے بصر کر دے
تمام عمر ہم ایک دوسرے سے مل نہ سکیں
سفر جدائی کا اتنا طویل تر کر دے
ہنوز چیر ہرن کا ہے سلسلہ جاری
کوئی کرشن کنہیا کو یہ خبر کر دے
یہ خوشبوؤں کی قبا گل کی چھاؤں اس کے لئے
منیرؔ کے لئے مخصوص دوپہر کر دے
غزل
اے آسماں کرم اتنا زمین پر کر دے
منیر سیفی