اہرمن ہے نہ خدا ہے مرا دل
حجرۂ ہفت بلا ہے مرا دل
مہبط روح ازل میرا دماغ
اور آسیب زدہ ہے مرا دل
سر جھکا کر مرے سینے سے سنو
کتنی صدیوں کی صدا ہے مرا دل
اجنبی زاد ہوں اس شہر میں میں
اجنبی مجھ سے سوا ہے مرا دل
آؤ قصد سفر نجد کریں
راہ ہے راہنما ہے مرا دل
چند بے نام و نشاں قبروں کا
میں عزا دار ہوں یا ہے مرا دل
نہ تقاضا ہے کسی سے نہ طلب
مدعا ہے نہ دعا ہے مرا دل
راکھ بن بن کے اڑی ہے مری روح
خون ہو ہو کے بہا ہے مرا دل
پہلے میں دل پہ خفا ہوتا تھا
اور اب مجھ سے خفا ہے مرا دل
غزل
اہرمن ہے نہ خدا ہے مرا دل
رئیس امروہوی