EN हिंदी
اہل جہاں کے ملنے سے ہم احتراز کر | شیح شیری
ahl-e-jahan ke milne se hum ehtiraaz kar

غزل

اہل جہاں کے ملنے سے ہم احتراز کر

جوشش عظیم آبادی

;

اہل جہاں کے ملنے سے ہم احتراز کر
بیٹھے ہیں گوشہ گیر ہو اس دل سے ساز کر

صورت اسی کی ہے متجلی ہر ایک میں
دیکھے جو کوئی چشم حقیقت کو باز کر

سجدہ جسے کریں ہیں ہر سو ہے جلوہ گر
جیدھر ترا مزاج ہو اودھر نماز کر

گو آسمان پر بھی اڑا تو تو کیا ہوا
میں کون ہوں کہاں ہوں یہ بھی امتیاز کر

کل ایک پل بھی تو نہ تھما اس کے روبرو
اے اشک کیا ملا تجھے افشائے راز کر

ؔجوشش ہو جب تلک کہ حقیقت سے تجھ کو راہ
تب تک برائے شغل تو سیر مجاز کر