اہل ہوس کے ہاتھوں نہ یہ کاروبار ہو
آباد ہوں ستارے زمیں ریگزار ہو
اک شان یہ بھی جینے کی ہے جی رہے ہیں لوگ
طوفان سے لگاؤ سمندر سے پیار ہو
حالات میں کبھی یہ توازن دکھائی دے
غم مستقل رہے نہ خوشی مستعار ہو
نفرت کے سنگ ریزوں کی بارش تھمے کبھی
دیر و حرم کے بیچ سفر خوش گوار ہو
صدیوں سے گھل رہی ہے اسی فکر میں حیات
رہزن سے پاک زیست کی ہر رہ گزار ہو
باد سموم لوٹ لے چہروں کی تازگی
اگلی صدی کی ایسی نہ فصل بہار ہو
نجمیؔ جو اپنے عہد کی تاریخ بن گئے
ان شاعروں میں کاش مرا بھی شمار ہو
غزل
اہل ہوس کے ہاتھوں نہ یہ کاروبار ہو
حسن نجمی سکندرپوری