اہل غم آؤ ذرا سیر گلستاں کر لیں
گر خزاں ہے تو چلو شغل بہاراں کر لیں
پھر تو ہر سمت اندھیرا ہی اندھیرا ہوگا
پو پھٹی ہے تو لٹی بزم چراغاں کر لیں
دل کی ویرانیاں آنکھوں میں اڑاتی ہیں غبار
مل کے رو لیں تو کچھ ان کو بھی فروزاں کر لیں
قہقہوں سے تو گھٹن اور بھی بڑھ جائے گی
آؤ چپ رہ کے ہی اس درد کا درماں کر لیں
شاید اس طرح بگولوں کا گزر ممکن ہو
اپنے ویرانے کو کچھ اور بھی ویراں کر لیں
ہم جو زندہ ہیں تو سب کہتے ہیں کیوں زندہ ہیں
آؤ مر کر بھی مسیحاؤں کو حیراں کر لیں
غزل
اہل غم آؤ ذرا سیر گلستاں کر لیں
پروین فنا سید