اہل دل ملتے نہیں اہل نظر ملتے نہیں
ظلمت دوراں میں خورشید سحر ملتے نہیں
منزلوں کی جستجو کا تذکرہ بے سود ہے
ڈھونڈنے نکلو تو اب اپنے ہی گھر ملتے نہیں
آدمی ٹکڑوں کی صورت میں ہوا ہے منتشر
وحدت فکر و نظر والے بشر ملتے نہیں
راستے روشن ہیں آثار سفر معدوم ہیں
بستیاں موجود ہیں دیوار و در ملتے نہیں
ذوق نظارہ دلوں میں دفن ہو کر رہ گیا
آنکھ والوں میں بھی اب اہل نظر ملتے نہیں
بڑھ گئے ہیں اس قدر قلب و نظر کے فاصلے
ساتھ ہو کر ہم سفر سے ہم سفر ملتے نہیں
ذہن کی چٹیل زمیں سے آنچ آتی ہے ظہیرؔ
اب یہاں احساس کے رنگیں شجر ملتے نہیں
غزل
اہل دل ملتے نہیں اہل نظر ملتے نہیں
ظہیر کاشمیری