EN हिंदी
اہل بدن کو عشق ہے باہر کی کوئی چیز | شیح شیری
ahl-e-badan ko ishq hai bahar ki koi chiz

غزل

اہل بدن کو عشق ہے باہر کی کوئی چیز

فرحت احساس

;

اہل بدن کو عشق ہے باہر کی کوئی چیز
باہر کسے ملی ہے مگر گھر کی کوئی چیز

بازار روز آئے گا جس گھر میں بے دریغ
بازار بھی تو جائے گی اس گھر کی کوئی چیز

قطرے کا اعتماد بھی کچھ بے سبب نہیں
قطرے کے پاس بھی ہے سمندر کی کوئی چیز

آج اس کے لمس گرم سے جیسے پگھل گئی
مجھ میں دھڑک رہی تھی جو پتھر کی کوئی چیز

سارا ہجوم ہے کسی اپنی تلاش کا
کھوئی گئی ہے شہر میں اکثر کی کوئی چیز

یہ ہے کسی وصال کی حسرت کہ خوف ہجر
چبھتی ہے رات بھر مجھے بستر کی کوئی چیز

احساسؔ شاعری میں گھلاتا ہے فلسفہ
ہر شعر عرض کرتا ہے جوہر کی کوئی چیز