عہد و پیماں کر کے پیمانے کے ساتھ
عمر گزری تیرے میخانے کے ساتھ
زندگی بھی جی چرا کر رہ گئی
کون مرتا تیرے دیوانے کے ساتھ
یہ نہ پوچھو رہ نوردان حرم
کون چھوٹا ہم سے بت خانے کے ساتھ
خود بخود حل ہو گئے کتنے سوال
وقت کے خاموش افسانے کے ساتھ
اے فقیہ شہر کیا اس کا علاج
چشم ساقی بھی ہے پیمانے کے ساتھ
ہوش مندوں پر گراں ہیں اے روشؔ
ان کی باتیں تجھ سے دیوانے کے ساتھ
غزل
عہد و پیماں کر کے پیمانے کے ساتھ
روش صدیقی