عہد حاضر میں عیار صبح تو بدلا مگر
اے اندھیری رات تجھ کو بھی بدلنا چاہیئے
باوجود غم مسلسل قہقہے اے نامراد
کاروان زندگی کے ساتھ چلنا چاہیئے
شان رندانہ کی ہے توہین ازخود رفتگی
سہل ہے پینا مگر پی کر سنبھلنا چاہیئے
زندگی وہ کیا جو ہے ناواقف آشوب عشق
سینۂ آدم میں طوفانوں کو پلنا چاہیئے
اقتضائے عصر نو ہے زندگی تو درکنار
موت کو بھی حسن کے سانچے میں ڈھلنا چاہیئے
اے جنوں کچھ دیر شغل خاک بازی ہی سہی
دل تو اس صحرائے ہستی میں بہلنا چاہیئے
غزل
عہد حاضر میں عیار صبح تو بدلا مگر (ردیف .. ے)
نہال سیوہاروی