عہد وفا نہ یاد دلائیں تو کیا کریں
ہم ان کو حال دل نہ سنائیں تو کیا کریں
جن سے نہیں ہے آپ کی منزل کو واسطہ
ان راستوں سے لوٹ نہ جائیں تو کیا کریں
وہ ہر طرف ہیں سمت کی جب قید ہی نہیں
دیر و حرم میں سر نہ جھکائیں تو کیا کریں
محکم ہے ربط عشق تو نزدیک و دور کیا
آئیں تو کیا کریں وہ نہ آئیں تو کیا کریں
مانا کہ ہم کو تاب نظر ہے نہ شوق دید
رخ سے وہ خود ہی پردہ اٹھائیں تو کیا کریں
اشرفؔ کو تھا عمل سے زیادہ کرم پہ ناز
کام آ گئی ہیں اس کی خطائیں تو کیا کریں
غزل
عہد وفا نہ یاد دلائیں تو کیا کریں
اشرف رفیع