EN हिंदी
عہد رفتہ کی حکایت کربلا سے کم نہ تھی | شیح شیری
ahd-e-rafta ki hikayat karbala se kam na thi

غزل

عہد رفتہ کی حکایت کربلا سے کم نہ تھی

خیال امروہوی

;

عہد رفتہ کی حکایت کربلا سے کم نہ تھی
زندگانی نسل آدم پر بلا سے کم نہ تھی

خون کے دریا کی لہروں میں بشر غرقاب تھا
وقت کی رفتار گویا بد دعا سے کم نہ تھی

پھر رہے تھے حکمراں کشکول لے کر در بدر
بندگی کی ظاہری صورت گدا سے کم نہ تھی

ہر طرف خونیں بھنور ہر سمت چیخوں کے عذاب
موج گل بھی اب کے دوزخ کی ہوا سے کم نہ تھی

معبدوں میں جن کے ایماں پر لہو چھڑکا گیا
ان کے خال و خط کی رونق پارسا سے کم نہ تھی

ظلم کے عفریت نے شہروں کو ویراں کر دیا
یوں تو بربادی جہاں میں ابتدا سے کم نہ تھی

ایسی ظالم داستانیں کان میں پڑتی رہیں
حیثیت جن کی طلسمی ماجرا سے کم نہ تھی

جانے کس گرداب ظلمت میں ڈبویا ہے انہیں
جن کی روشن رہنمائی ناخدا سے کم نہ تھی