عہد پیری نے ہمیں رنگ دکھائے کیا کیا
سر پہ ہو شام تو بڑھ جاتے ہیں سائے کیا کیا
ٹھوکریں لگنے لگیں ضعف بصارت کے سبب
دیکھیے ضعف سماعت بھی دکھائے کیا کیا
ترک الفت کی کبھی اور کبھی ترک مے کی
اب تو احباب بھی دینے لگے رائے کیا کیا
وائے نادانئ دل اس نے محبت کر کے
رنج و غم مول لئے بیٹھے بٹھائے کیا کیا
خود کو رسوا کیا ہر راز چھپا کر اس کا
اپنے سر لے لئے الزام پرائے کیا کیا
عیش و عشرت سے سدا کام جوانی میں رہا
شعر و نغمہ سے شب و روز سجائے کیا کیا
سایۂ زلف کبھی اور کبھی دامن کی ہوا
اس کے الطاف و کرم یاد نہ آئے کیا کیا
فکر عقبیٰ سے لرزتے ہیں اب اعصاب تمیزؔ
دیکھیے فرد عمل سامنے لائے کیا کیا

غزل
عہد پیری نے ہمیں رنگ دکھائے کیا کیا
تمیزالدین تمیز دہلوی