عہد کم کوشی میں یہ بھی حوصلہ میں نے کیا
شہر کے سب بند دروازوں کو وا میں نے کیا
میں نے صف آرا کیا اک مجمع شوریدہ سر
کج کلاہ شہر کو بے ماجرا میں نے کیا
دے دیے محرومیوں کے ہاتھ میں جام و سبو
میکدے میں ایک ہنگامہ بپا میں نے کیا
میں عدالت میں اٹھا لایا ہوں خود اپنی صلیب
میرے منصف دیکھ یہ بھی فیصلہ میں نے کیا
میں نے مجنوں کو دیا درس سلوک عاشقی
چاک داماں کو محبت کی جزا میں نے کیا
میں نے ایوانوں میں پھینکے سنگ جرأت آفریں
نشۂ طاقت اثر کو بے مزا میں نے کیا
اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا سبوب بندگی
مجھ سے تشنہؔ اس نے جو کچھ بھی کہا میں نے کیا
غزل
عہد کم کوشی میں یہ بھی حوصلہ میں نے کیا
عالم تاب تشنہ