عہد حاضر نے جو ٹھکرایا بہت
وہ پرانا دور یاد آیا بہت
کیا ملا میری تباہی پر انہیں
خندہ زن ہے میرا ہمسایہ بہت
عیش و عشرت میں تو ہم بھولے رہے
دکھ مصیبت میں وہ یاد آیا بہت
ہو مبارک لذت افراط غم
ہے یہ ارزانی گراں مایہ بہت
چھت نہیں میرے مکاں میں تو نہ ہو
آسماں کا ہے مجھے سایہ بہت
خشک کھیتوں پر فقط گرجا کیے
اور دریاؤں پہ برسایا بہت
جس پہ پڑ جائے وہی محمودؔ ہو
ہے پسندیدہ مرا سایہ بہت
غزل
عہد حاضر نے جو ٹھکرایا بہت
محمود رائے بریلوی